Big search engine

گکھڑ About Ghakkhar Nation

Thursday, 18 May 2017

گکھڑ جسے جہلم، راولپنڈی اور ہزارہ کا ایک اہم مسلمان قبیلہ گردانا جاتا ہے جہاں تک جہلم کے گکھڑوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں مسٹر ڈبلیو ایس ٹالبوٹ رقمطراز ہے

©” گکھڑوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں لیکن وہ ضلع جہلم کے اہم ترین قبیلوں میں شمار ہوتے ہیں اور خطے کے مسلمانوں میں ان کا درجہ جنجوﺅں کے برابر ہے۔ وہ اس ضلع کی جہلم تحصیل تک ہی محدود ہیں اس کے علاوہ راولپنڈی اور ہزارہ اضلاع میں بھی ان کی کچھ تعداد ہے

اس قبیلے کی تاریخ اور ماخذ کے بارے میں کافی کچھ لکھا گیا جنرل کورٹ کی یہ رائے گو کہ حمایت حاصل نہ کر سکی مگر اس کا بیان کرنا لازم ہے اس نے کہا کہ گکھڑوں کا نام یونانی ماخذ کی جانب اشارہ کرتا ہے تاہم قبیلے کے کچھ نمائندے اب بھی خود کو سکندر اعظم کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرنے لگے ہیں ۔ جنرل اے برانڈرتھ نے اس روایت کو درست مانا ہے کہ گکھڑ فارس سے کشمیر گئے اور پھر وہاں سے جہلم آئے گکھڑوں کی اکثریت یہی دعویٰ کرتی ہے ۔ بحیثیت مجموعی فرشتہ کے متن بیان سے پرے جانے کا کچھ فائدہ نظر نہیں آتا ہے جس نے زیادہ تر پہاڑیوں میں آباد گکھڑوں کو بہت تھوڑے اعتقاد والے یامذہب سے بالکل عاری ایک بہادر اور وحشی نسل کے طور پر پیش کیا ہے جو چند شوہر اور دختر کشی کے عادی تھے       

گکھڑوں کی اپنی بیان کردہ کہانی یہ ہے کہ وہ اصفحان کے حاکم کیانی خاندان کے بادشاہ کیگوہاریا کیگوار کی اولادہیں اور یہ کہ انہوں نے کشمیر و تبت فتح کر کے کئی پشتوں تک وہاں حکومت کی لیکن انجام کار واپس کابل کی طرف دھکیل دئیے گئے اس کے بعد گیارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں محمود غزنی کے ہمراہ پنجاب میں وارد ہوئے۔ لیکن سر ڈینزل ابٹسن نے اس کہانی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیونکہ فرشتہ لکھتا ہے کہ 1008عیسوی میں پشاور کے نواح میں گکھڑ دستے نے محمود پر حملہ کیا تھا ۔ بہر صورت یہ امر یقینی ہے کہ اپنے موجودہ مساکن میں مسلمانوں کی ہندوستان آمد سے کافی عرصہ پہلے ہی آباد ہیں۔1206میں محمد غوری کے حملوں کے دوران فرشتہ ان ہی کے بارے میں لکھتا ہے:


©” اس موقع پر لاہور میں محمد غوری کے قیام کے دوران نیلاب کے کناروں ( اٹک کے قرب میں موجود وادی) کے ساتھ ساتھ اوپر شوالک پہاڑوں تک آباد گکھڑوں نے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم کئے اور پشاور اور ملتان کے صوبوں کا رابطہ منقطع کر دیا ۔ یہ گکھڑ وحشی جنگلیوں کی ایک نسل تھے جس کا کوئی مذہب تھا نہ اخلاقیات۔ ان میں ایک رواج تھا کہ جونہی کسی کے گھر کوئی لڑکی جنم لیتی وہ اسے اٹھا کر گھر کی دھلیز پر لے جاتا اور ایک ہاتھ میں لڑکی اور دوسرے ہاتھ میں چاقو پکڑ کر بہ آواز بلند پکارتا کہ جو شخص اس کو اپنی بیوی بنانا چاہتا ہے لے جائے ورنہ اسے ابھی ہلاک کر ڈالے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں عورتوں کی نسبت مرد بہت زیادہ ہو گئے تھے نتیجتاً ایک عورت کے کئی خاوند ہونے ( کثیر شوہری) کی روایت بھی موجود تھی بیوی ایک شوہر کے گھر جاتے وقتدروازے پر ایک نشانی چھوڑ جاتی اور دوسرا شوہر وہ نشانی دیکھ کر اس کے ہتائے جانے تک انتظار کرتا رہتا

©“ فرشتہ کے مطابق انہی وحشی افرادنے محمد غوری کو قتل کیا لیکن فرشتہ سے پہلے مورخین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ شہاب الدین گوری کو گکھڑوں نے نہیں بلکہ کھوکھروں نے قتل کیا یقینا فرشتہ کے ان دونوں قبیلوں کے سلسلہ میں کو ئی ایسی غلطی سرزد ہوئی ہو گی کس سے ان کا ذکر گڈمڈ مو کر رہ گیا مثلاً ایک مقام پر وہ شیخا اور جسرت کو بھی گکھڑ سردار کہتا ہے بکہ یہ دو نام کھوکھروں کے نسب میں موجود ہیں 
اس بحث میں جائے بغیر کہ ان میں کس مورخ کی بات میں کس قدر وزن ہے یہ قبیلہ کالا چٹا پہاڑی سلسلہ میں تحصیل فتح جنگ ہے قرب و جوار میں ایسی تعداد میں موجود ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا یاد رہے کہ مسٹر ڈبلیو ایس ٹالبوٹ نے جس ضلع راولپنڈی کا ذکر کیا تھا اس میں تحصیل فتح جنگ شامل تھی جسے بعد ازاں کیمبل پور یا اٹک میں شامل کر دیا گیا۔ گکھڑ متعدد ذیلی شاخوں میں بٹے ہوئے ہیں جن میں سے مرکزی اومال، اکندرال،بگیال، فیروزال اور تلیال نمایاں حیثیت کی 

حامل ہیں
بشکریہ القلم

No comments:

Post a Comment

 

Most Reading