ضلع اٹک یوں تو 1904میں قائم ہوا تاہم یہ علاقہ صدیوں پر محیط شاندار تاریخ کا حامل رہا ہے سنگلاخ چٹانوں ، ریتیلے ٹیلوں اور سر سبز وادیوں کی اس سرزمین نے اپنے سینے میں تاریخ کے کئی سر بستہ راز سمیٹ رکھے ہیں یہاں کے نڈر اور غیور عوام میں بھی دریائے سندھ کے شفاف پانیوں جیسی روانی ، جولانی اور طغیانی بدرجہ اتم موجود ہے اور اس دھرتی نے کئی ایسے نامور سپوت پیدا کئے جنھوں نے شہرت و ناموری میں عالمگیریت حاصل کی اور اپنی خدمات جلیلہ کے بل بوتے پر نہ صرف اپنا بلکہ اس علاقے کا نام بھی امر کر گئے ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ بھی ایسی ہی شاندار تاریخ کی حامل ہے اور اس تاریخ کے حوالوں میں جب بھی تحصیل فتح جنگ کا ذکر آتا ہے تو ”ریاست کوٹ فتح خان “ ایک روشن تر باب کی صورت میں درخشندہ و تابندہ نظر آتی ہے کیونکہ اس تحصیل کو جو 1865سے قائم ہے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ ہر بین الاقوامی سطح پر شہرت دلانے کا سہرا بھی رئیسان کوٹ فتح خان کے حصے میں آتا ہے شہرت و ناموری کی یہ داستان یوں تو صدیوں پرانی ہے لیکن اس کو چار چاند لگانے کا سہرا اس کے ایک سپوت سردارسر محمد نواز خان کے سر ہےبشکریہ القلم
یوں تو اس علاقہ میں سیاست کے افق پر کئی نام ستارے بن کے جگمگائے مگر ان میں سے چند نام ایسے موجود ہیں جن کی شہرت کی تابناکیاں آج تک قائم و دائم ہیں ان کی روشن ضمیری ، حب الوطنی ، بے داغ سیاسی زندگی ، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور عوامی خدمت کے ایسے سنہرے اور گہرے نقوش ملتے ہیں جنہیں مکافات عمل کی گرد بھی مٹانے میں ناکام ثابت ہوئی یہ افراد اقتدار کی طاقت ، دولت اور اختیارات کی موجودگی کے باوجود کسی ایسی ڈگر پر نہ چلے جس کے آغاز یا اختتام پر کسی جذباتی لغزش کا کوئی امکان تک ہو ان کی نیک نامی میں ان کے مضبوط اخلاق کا کردار عمارت میں اینٹ کی مثل موجود ہے ان چند ایک افراد کی فہرست پر اگر نگاہ ڈالی جائے تورئیسِ اعظم آف کوٹ فتح خان نواب سردار سر محمد نواز خان کا نام سر فہرست ہی نظر آئے گا آپ کی تقسیم ہندسے قبل اور تقسیم ہندکے بعد کی زندگی بے باک سیاست اور شرافت کی آئینہ دار ہے نواب سردار سر محمد نواز خان اگست 1901کو ضلع اٹک ( کیملپور) کی ایک معروف ریاست کوٹ فتح خان کے رئیس سردار محمد علی خان گھیبہ کے ہاں پیدا ہوئے 1903میں جب آپ کی عمر صرف 18ماہ تھی پدرانہ شفقت سے محروم ہو گئے یہ ایک ایسی کمی تھی جو پوری نہ ہو سکتی تھی مگر آپ کی والدہ نے جس استقامت اور ہمت سے آپ کی پرورش کی اس کی مثال نہیں ملتی انہوں نے آپ کو کبھی باپ کی کمی کا احساس تک نہ ہونے دیا آپ نے ابتدائی تعلیم ” ایچی سن چیفس “ کالج لاہور سے حاصل کی (کم عمر ی اور حصول تعلیم کے باعث آپ کی وسیع ریاست کی ذمہ داریاں” کورٹ آف وارڈز“ نے نبھائیں) بعد ازاں انگلینڈ چلے گئے جہاں سے 1921میں رائل ملٹری کالج سینڈھرسٹ کے پہلے ہندوستانی بیج میں گریجویشن کی آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ آپ اس کالج کے پہلے پانچ مسلم طلباءمیں سے ایک تھے جنھوں نے اس کالج سے اعلیٰ تعلیمی ڈگری حاصل کی آپ کے علاوہ صاحبزادہ سکندر مرزا جو بعد ازاں ملک کے پہلے صدر بنے اسی بیج میں شامل تھے نواب سردار محمد نواز خان نے انڈین رائل آرمی کی ”تیسری کوئینز ھزاراز “ میں حیدر آباد کے مقام پر خدمات سر انجام دیتے رہے اور جب 1926میں انہوں نے فوج کو خیرباد کہا تو آپ اعزازی لیفٹیننٹ کرنل تھے 1927میں جب مسلمانوں میں آزادی کا شعور پروان چڑھ رہا تھا اور ایک نئے سفر کے آغاز کی تیاریاں اپنے عروج کی جانب گامزن تھیں کہ آپ ”انڈین لیجسلیٹیو اسمبلی“ کے ممبر منتخب ہوئے اس وقت آپ کی عمر صرف 26سال تھی آپ کو اپنے علاقے میں اعزازی مجسٹریٹ اور سب جج کی حیثیت سے بھی اختیارات سونپے گئے آپ کی اعلیٰ خدمات اور بالخصوص عوامی خدمات کے پیش نظر1939میں حکومت برطانیہ نے آپ کو شاہی اعزاز سے نوازتے ہوئے ” سر“ کا خطاب دیا 1946میں پھر آپ کو ” نائٹ ہوڈ“ کے اعزاز سے نوازتے ہوئےKCIEکا خطاب عطا ہوا ۔ آپ پنجاب قانون ساز اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد مغربی پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر بھی رہے اور 23 سال تک اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے رہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری خدمات کے دوران آپ نے حکومت پاکستان سے کبھی تنخواہ یا دیگر مراعات وصول نہیں کیں ان تمام سرکاری اعزازات اور انعامات کے افتخار کے باوجود آپ ایک سادہ، مخلص اور ہمدردانسان کے ساتھ ساتھ سچے مسلمان بھی تھے آپ نے تحریک آزادی میں بھی شاندار خدمات سر انجام دیں جس کا ثبوت قائد اعظم محمد علی جناح کا وہ خط ہے جس میں انہوں نے تحریک آزادی پاکستان بلکہ دوسرے لفظوں میں پاکستان مسلم لیگ کے لئے خدمات اور مالی امداد کو سراہا قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ نے لکھا!
بعد از قیام پاکستان سردار سر محمد نواز خان کو پہلا وزیر دفاع ہونے کا اعزاز بھی ملا ریاستوں اور سرحدی علاقہ جات کا قلمدان بھی آپ کے پاس تھا آپ نے پہلے وزیرا عظم لیاقت علی خان کے ساتھ کام کیا خدمت کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رُکا بلکہ 1950میں آپ کی ملکی خدمات اور اعلیٰ تعلیم کے پیشِ نظر آپ کو فرانس کیلئے پاکستان کا پہلا سفیر مقرر کیا گیا یہ وہ دور تھا جب پاکستان کو دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آئے صرف تین سال کا قلیل عرصہ گزرا تھا اوروطنِ عزیز معا شی مسائل کے باعث نہایت مشکل حالات سے گزر رہا تھا جب آپ سفیر کی حیثیت سے فرانس پہنچے تو آپ کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے سفارت خانے کی ضرورت پیش آئی مگر ملکی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہاں پر اپنا سفارت خانہ تعمیر کیا جائے اس نازک دور میں سردار سر محمد نواز خان نے فیاضی اور حب الوطنی کا ایک ایسا علم گاڑا جو رہتی دنیا تک سبز ہلالی پرچم کے ہمراہ وطن دوستی کی مثال بنا لہراتا رہے گا آپ نے پیرس کے مہنگے ترین علاقے میں اپنی جیب سے زمین خرید کر اس پر عظیم الشان بلڈنگ تعمیر کروائی جب یہ مکمل ہو گئی تو اسے بحق حکومت پاکستان وقف کر دیا جہاں آج تک پاکستانی سفارت خانہ قائم ہے اور انشاءاللہ تا قیامت قائم رہے گا۔
آپ کی تمام زندگی اہل وطن کیلئے خدمات کا نشان بنی رہی آپ کی وطن پرستی اور مسلم لیگ دوستی کے پیش نظر آپ کا شمار ان مسلم لیگی کارکنان میں ہوتا ہے جن کی رگوں میں مسلم لیگ اور دو قومی نظریہ خون کی طرح دوڑتا تھا۔آپ ایک درویش صفت انسان تھے آپ کے پاک باز کردار کے چرچے آج بھی عوام میں موجود ہیں آپ کو دین سے بے حد لگاو ¿ تھا مطالعہ آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا اس وقت بھی آپ کی لائبریری میں نادر کتب کی کثیر تعداد موجود ہے کسی بھی کتاب کو اٹھا کر دیکھا جائے تواسکے ہر ورق پر ریمارکس کا اندراج اور انڈر لائن کیے گئے الفاظ اس بات کا ثبوت ہیںکہ آپ نے اپنی لائبریری کی ہر کتاب کو تفصیل سے پڑھا تھا شبانہ روز محنت کے باعث 1951میں آپ شدید علیل ہو گئے ڈاکٹر نے آپ کو آرام کا مشورہ دیا جسکی بنا پر آپ 1952میں سرکاری خدمات سے سبکدوش ہو کر اپنے آبائی علاقے کوٹ فتح خان آ گئے اسی سال آپ کو شریک حیات بھی داغ مفارقت دے گئیں۔
آپ کی شریک حیات نواب آف کالا باغ ملک عطا محمد خان کی بیٹی اور ملک امیر محمد خان کی بہن تھیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹیوں سے نوازا ۔ سب سے بڑی بیٹی کی شادی ملک یار محمد خان ( پنڈی گھیب) سے ہوئی جو رشتہ میں نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کے بھانجے تھے منجھلی بیٹی کی شادی سردار ممتاز حسین خان (کوٹ فتح خان) جبکہ تیسری بیٹی نواب ملک امیر محمد خان ( کالا باغ) کے صاحبزادے ملک مظفر خان کے ساتھ بیاہی گئیں سب سے چھوٹی بیٹی جو کہ آپ کو سب سے زیادہ لاڈلی اور پیاری تھیں ان کی شادی کرنل چودھری ممتاز علی خان (چکوال) سے ہوئی۔ آپ کی سیاسی اور عوامی خدمات کے سلسلہ کو آپ کے خالہ زاد بھائی اور برادر نسبتی نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے آگے بڑھایا جو انتہائی مخلص، سادہ مگرجلالی طبیعت کے مالک تھے۔ انہیںPIDC ( پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن ) کے پہلے چئیرمین کے طور پر خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا 1960میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے قدرت اللہ شہاب کے مشورے سے آپ کو مغربی پاکستان کا گورنر بنا دیا آپ نہایت اچھے منتظم اور عوام دوست حکمران ثابت ہوئے اس کی سب سے بڑی مثال1965کی جنگ کے دوران جب ملک میں اچانک چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر دی گئی تو آپ کے صرف ایک حکم پر اس مصنوعی قلت کا خاتمہ ہو گیا ۔ اور گوداموں کی ذخیرہ اندوز چینی سربازار بکنے لگی ۔آپ دوران اقتدار خود بازاروں میں گھوم کر عوام کے مسائل سے آگاہ ہوتے روز مرہ خوردو نوش کی اشیاءکے بھاﺅ چیک کرتے اور زیادتی کے مرتکب ہونے والے سوداگروں سے سختی سے نمٹتے بعد ازاں صدر ایوب سے اختلافات کے باعث 1967میں استعفیٰ دے دیا آپ کالا باغ میں ہی اپریل1968میں قتل ہوئے آج بھی ان کے قتل کی کڑیاں غربت ، مہنگائی کیخلاف سخت ترین اقدامات کے واقعات سے ملائی جاتی ہیں۔( واللہ بالعلم)
سردار محمد نواز خان رئیس کوٹ فتح خان کو اپنے خالہ زاد بھائی ملک امیر محمد خان نواب آ ف کالا باغ سے بے حد محبت اور الفت تھی آپ نے ان کی ہر طرح سے سرپرستی فرمائی اس لئے ان کے بہیمانہ قتل پر بے حد رنجیدہ اور افسردہ ہوئے اور اس الم ناک واقعے نے آپ کو بے حد غمگین کر دیا غم و اندوہ کے اس عالم میں آپ اپریل 1968کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہِ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment